amp-web-push-widget button.amp-subscribe { display: inline-flex; align-items: center; border-radius: 5px; border: 0; box-sizing: border-box; margin: 0; padding: 10px 15px; cursor: pointer; outline: none; font-size: 15px; font-weight: 500; background: #4A90E2; margin-top: 7px; color: white; box-shadow: 0 1px 1px 0 rgba(0, 0, 0, 0.5); -webkit-tap-highlight-color: rgba(0, 0, 0, 0); } .amp-logo amp-img{width:190px} .amp-menu input{display:none;}.amp-menu li.menu-item-has-children ul{display:none;}.amp-menu li{position:relative;display:block;}.amp-menu > li a{display:block;} /* Inline styles */ h2.acss25665{text-align:right;}span.acssad89b{font-family:'Noto Nastaleeq';font-size:24px;font-weight:400;}p.acss25665{text-align:right;}span.acss357b6{font-family:'Noto Nastaleeq';font-size:16px;font-weight:400;}span.acss9498a{font-family:'Noto Nastaleeq';font-size:16px;}span.acssf62a8{font-weight:400;}

Wasif Ali Wasif

واصف علی واصفؒ : تعارف

کچھ ایسی شخصیات ہوتی ہیں جن کی کمی تادیر محسوس ہوتی ہے ایسی ہی ایک ہستی حضرت واصف علی واصف کی ہے کہ جب تک وہ حیات تھے‘ مخلوق خدا ان کے پند و نصائح سے فیض پاتی تھی اور ان کے اس جہان فانی سے جانے کے بعد بھی ان کی باتوں کو آج بھی دل و دماغ میں سمائے ہوئے ہیں‘ ان کے افکار آج بھی زبان زد عام ہیں ۔

’’انسان مال جمع کرتا ہے اس کے بینک بھرے رہتے ہیں اور دل خالی رہتا ہے‘‘

’’ہم فرعون کی زندگی چاہتے ہیں اور موسی ٰ ؑکی عاقبت‘‘

’’جب قئدین کی بہتات ہو جائے توسمجھ لیجئے کہ قیادت کا فقدان ہے‘‘

اُن کی زندگی کے ماہ وسال پر نظر دوڑائی جائے تو ان کی سال کے پہلے مہینے جنوری کی 19 تاریخ اور سن 1929ء کو آپ کی ولادت ہوئی ان کے والد ملک عارف کا تعلق اعوان قبیلے کی ایک شاخ ’’کنڈان‘‘ سے ہے والدین نے اس بچے کا نام واصف علی رکھا بچپن کے بعد جب پڑھنے لکھنے کے قابل ہوئے تو ان کو قصبہ کے ایک سکول میں داخل کروا دیا گیا اور پھرآپ نے جون 1939ء میں گورنمنٹ ہائی سکول خوشاب سے مڈل کا امتحان پاس کیا پھر مزید تعلیم و تربیت کیلئے نانا کے پاس جھنگ آ گئے اور جھنگ کے گورنمنٹ ہائی سکول سے 1944ء میں میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ اس وقت میٹرک کا امتحان پنجاب یونیورسٹی لیا کرتی تھی‘ اسی طرح انہوں نے ایف اے جھنگ کے کالج سے فرسٹ ڈویژن ہی میں پاس کیا اور گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجوایشن کرنے کے بعد ایم اے انگریزی ادب کیلئے گورنمنٹ کالج لاہور میں آ گئے۔ دوران تعلیم نوجوان واصف کا کیرئر تو بے مثال تھا‘ اسی طرح غیرنصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ ہاکی کے بہترین کھلاڑی کی حیثیت سے 1948ء میں ’’کالج کے بہترین پلیئر‘‘ کا اعزاز اور 1949ء میں ’’ایوارڈ آف دی ایئر‘‘ بھی دیا گیا تھا جبکہ ستمبر 1954ء میں ویسٹ پاکستان پولیس ٹریننگ کا اعزازی سرٹیفکیٹ بھی دیا گیا۔ تعلیم کے بعد انہوں نے سول سروس کا امتحان پاس کیا مگر سرکاری نوکری ان کی منزل مقصود نہ تھی لہٰذا کچھ عرصہ بعدانہوں نے ٹمپل روڈ (حمید نظامی روڈ) پر پنج دریا کے مالک و ایڈیٹر افضل خان کے پنجابی اینگلو کالج میں علوم شرقیہ کے طالب علموں کو پنجابی پڑھانے کا آغاز کر دیا، بعد ازاں نابھہ روڈ پر ’’لاہور انگلش کالج‘‘ کو درس و تدریس کا مرکز بنا لیا اور ساتھ ہی ہفتہ وار ادبی نشستوں کا اہتمام بھی ہونے لگا جس میں اردوپنجابی کے معروف شعراء کرام شرکت کرتے تھے۔ انہی دنوں میری واصف صاحب سے پہلی بار ملاقات ہوئی تھی ۔ وہ جتنے اچھے استاد تھے اتنے ہی اچھے شاعر بھی تھے، ان کی نعتوں کا اسلوب بھی منفرد تھا اور اس میں ایک وارفتگی تھی، جس طرح ان کی گفتگو دل پر اثر کرتی تو ان کے اشعار بھی سننے والوں کو مسحور کر دیتے۔ اسی دوران انہوں نے تصوف پر لیکچر دینے کے ساتھ اخبارات میں خاص طور پر ’’نوائے وقت‘‘ میں ہر ہفتے کالم لکھنے کا بھی آغاز کر دیا تھا۔ آپ کو تصوف سے دلچسپی زمانہ طالب علمی سے ہی تھی اور درس و تدریس کے دوران بھی وہ اس موضوع پر گفتگو بھی کرتے اور لکھتے بھی رہے۔ انہی دنوں ’’ادب لطیف‘‘ کے ایک خصوصی شمارے میں تصوف کے موضوع پر اشفاق احمد اور حنیف رامے کے ساتھ واصف علی واصف کی پرمغز مقالے شائع ہوئے اور اشفاق احمد، حنیف رامے سے ان کی ذہنی ہم آہنگی سے ایسی مجالس کا آغاز ہوا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے علم و ادب کے شیدائیوں کے دلوں میں گھر کر لیا۔ ابتدا میں واصف علی واصف کومعروف شخصیات ہر ہفتے اپنے گھر مدعو کرتیں اور واصف صاحب کی تصوف پر گفتگو ہوتی اس کے بعد شرکاء محفل کے جوابات بھی دیتے۔ پھر یہ سلسلہ مستقل واصف صاحب کے گھر پر ہی ان کی وفات تک جاری رہا جس میں علمی و ادبی ہی نہیں مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی کثیر تعداد شرکت کرتی تھی۔

واصف علی واصف کا کلام اگرچہ اخبار و جرائد میں وقتاً فوقتاً چھپتا رہتا تھا پھر اسے احباب کے اصرار پر ترتیب دے کر کتابی صورت میں ’’شب چراغ‘‘ کے نام سے شائع ہوا، پھر ان کی کتا ب ’’کرن کرن سورج‘‘ طبع ہوئی تو لاہور میں اس کی تقریب پذیرائی ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ہوئی جس میں ملک بھر کی معروف علمی و ادبی شخصیات نے اظہار خیال بھی کیا اور یوں ان کی کتابوں کو بھی پذیرائی کا سلسلہ وقت کے ساتھ بڑھنے لگا۔

واصف علی واصف کی تصانیف میں قطرہ قطرہ قلزم، حرف حرف حقیقت، دل دریا سمندر، بات سے بات، گمنام ادیب، ذکر حبیب، مکالمہ، دریچے اور پنجابی شاعری کا مجموعہ بھرے بھڑرولے بھی شامل ہیں۔ ان کی محافل میں ہونے والی گفتگو کو کتابی شکل میں بھی پیش کیا گیا اور اب تک اس کی دو درجن سے زائد جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔

واصف علی واصف 18 جنوری 1993ء کو 64 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ ان کو جنازگاہ مزنگ کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ آج ہر سال ان کے عقیدت مند برسی کے موقع پر ان کے مرقد پر حاضری دیتے ہیں اور اس عظیم صوفی دانشور کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جس نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے عام سننے والوں کے دلوں کو مسخر کیا۔ وہ فرماتے تھے ’’عظیم لوگ بھی مرتے ہیں مگر موت ان کی عظمت میں اضافہ کرتی ہے‘‘۔

واصف علی واصف آج اس جہان فانی میں نہیں لیکن ان کی تحریروں سے علم و ادب کے پروانے آج بھی فیض یاب ہو رہے ہیں

بڑے یقین سے دیکھی تھی ہم نے صبع امید

قریب پہنچے تو واصف وہ روشنی نہ رہی

خالد یزدانی
نوائے وقت

 

admin: