Tipu Sultan – Part 2

شیرِ میسور ٹیپو سُلطان (دوسرا حصہ)

سری رنگاپٹّم کے قلعے پر انگریزوں کا تسلط ہو گیا تھا۔ قلعے کے دروازے کھول دیے گئے تھے۔ انگریز فوج اندر داخل ہو گئی۔قلعے پر قبضہ جمانے کے بعد بھی انگریزوں کو اب تک سلطان ٹیپو کی شہادت کا علم نہ تھا۔ وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ سلطان اپنی جان بچانے کے لیے محل میں کہیں چھپ گئے ہیں۔ چناں چہ انگریزوں نے اپنے ایک افسر کو سفید جھنڈا دیا اور محل میں بھیجا کہ وہ سلطا ن کو حکم دے کہ: ’’ سلطان ہتھیار ڈال دیں اور اپنے آپ کو انگریز فوج کے حوالے کر دیں۔ ‘‘ لیکن جب انگریز افسر امن کا سفید جھنڈا لے کر قلعے میں پہنچا تو سلطان محل میں نہ تھے۔ خود محل والوں کو بھی سلطان کو کچھ پتا نہ تھا۔ جب سلطان محل میں نہ ملے تو پھر اُن کی تلاش شروع ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد یہ معلوم ہوا کہ سلطان تو مغرب سے کچھ دیر پہلے عام سپاہیوں کی طرح بہادری لڑتے ہوئے شہید ہو چکے ہیں۔اندھیرا کافی پھیل چکا تھا۔ چناں چہ مشعلوں کی روشنی میں قلعے کے باہر لاشوں کے انبار میں سلطان کی لاش بڑی مشکل سے تلاش کی گئی۔ سلطان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور بدن بھی گرم تھا۔اور اُن کی تلوار اُن کے ہاتھ میں ہی تھی۔ جسم پر تین زخم اور کنپٹی پر ایک زخم تھا۔ سلطان کے جسم سے قیمتی کپڑے اور خوب صورت پیٹی غائب تھی۔

                                                            انگریز جنرل لارڈ ہارش سلطان سے اس قدر ڈرتا تھا کہ سلطان کی شہادت کے بعد بھی اُن کی لاش کے قریب جانے کی اُس میں ہمّت نہ ہوئی۔ جب اُس کو یقین ہو گیا کہ سلطان کی موت واقعی ہو چکی ہے تو وہ لاش کے قریب گیا اور خوشی سے پکار اٹھا:’’ آج ہندوستان ہمارا ہے۔

سری رنگا پٹّم کی اس آخری لڑائی میں مرہٹے غیر جانب دار رہے جب کہ اس سے قبل کی کئی جنگوں میں انھوں نے انگریزوں کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ انھیں کبھی بھی یہ محسوس نہ ہوا کہ انگریز ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کرنے کا جو خواب دیکھ رہے ہیں اُن کی تعبیر میں سب سے بڑی رکاوٹ سلطان ٹیپو ہی ہیں۔ سلطان ٹیپو نے انھیں کئی مرتبہ انگریزوں کے خلاف اتحاد کی دعوت بھی دی لیکن انھوں نے ہمیشہ اُن کے پیغام کو ٹھکرایا۔ سلطان ٹیپو کی شہادت کے بعد انھیں صورتِ حال کی خطرناکی کا احساس ہوا لیکن اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ پیشوا باجی راؤ نے سلطان ٹیپو کی شہادت کی خبر سُن کر کہا تھا کہ :’’ ٹیپو کا مارا جانا میرے سیدھے بازو کے کٹ جانے کے برابر ہے۔‘‘

                                                            نانا فرنویس پر بھی ٹیپو کی شہادت کا بہت اثر ہوا تھا۔اس خبر کو سُن کر اُس نے کہا کہ:’’ ٹیپو ختم ہو گیا۔ برطانوی طاقت میں اضافہ ہو گیا۔ اب پورا ہندوستان اُن کاہے۔ پونا اُن کا دوسرا شکار ہو گا۔ لگتا ہے کہ دن بُرے آ گئے ہیں۔ قسمت کے لکھے سے کوئی مفر(فرار) نہیں۔‘‘

                                                            سلطان کی لاش پالکی میں رکھ کر محل لائی گئی۔ وہاں شہادت کی خبر پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔ جس کی وجہ سے پورے محل میں ایک کہرام برپا تھا۔ جیسے ہی لوگوں نے اپنے عظیم محسن اور مجاہد کی لاش دیکھی دھاڑیں مار مار کر رونے پیٹنے لگے۔ کوئی ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں سے آنسو نہ جاری ہو۔ رات بھر محل ماتم کدہ بنا رہا۔دوسرے روز صبح سلطان کی لاش کو غسل دیا گیا۔ اس کے بعد تمام شہزادوں، خادموں، جاں نثاروں اور دوسرے لوگوں کو سلطان ٹیپو شہید کا آخری دیدار کرایا گیا۔ جب تجہیز و تکفین کے تمام انتظامات مکمل ہو گئے تو بھیگی پلکوں کے سایے میں اِس عظیم مجاہد کا جنازہ اٹھایا گیا۔ جنازہ لال باغ کی طرف روانہ ہوا۔ ہزاروں عورتیں، بچّے، جوان اور بوڑھے مجاہد کا جنازہ دیکھ کر زار و قطار رو رہے تھے۔ مسلمان اور ہندو عورتیں اپنے سروں پر راکھ ڈالے ماتم کر رہی تھیں۔ انگریزوں کی چار کمپنیاں جنازے کے آگے ادب سے پریڈ کرتے ہوئے۔ چل رہی تھیں اور راستے کے دونوں جانب بھی انگریزی فوج صف بستہ کھڑی تھی۔انگریز فوج کا بینڈ ماتمی دھُن بجا رہا تھا اِس لیے کہ یہ کوئی عام آدمی کا جنازہ نہ تھا بل کہ یہ ایک جیالے، بہادر، جری، شیر دل اور عظیم مجاہد کا جنازہ تھا۔آسمان پر کالے اور ڈراؤنے بادل چھائے ہوئے تھے۔ ہوا رُکی ہوئی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا۔ جیسے ہر کوئی سلطان ٹیپو شہید کے غم میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

جنازہ لال باغ پہنچا۔ سلطان ٹیپو شہید کی نمازِ جنازہ سے پہلے سلطان کو توپوں کی سلامی دی گئی۔ انگریز فوج کا بینڈ جو ماتمی دھُن بجا رہا تھا وہ رک گیا، پھر ہزاروں سوگواروں نے نمازِ جنازہ ادا کی۔ کہا جاتا ہے کہ سلطان کی نمازِ جنازہ کے وقت آسمان پر زور زور سے بادل گرج رہے تھے اور رہ رہ کر بجلی بھی کڑک رہی تھی۔

                                                            لال باغ میں سلطان حیدر علی کی قبر کے پاس ہی سلطان ٹیپو کے لیے بھی قبر تیار کی جا چکی تھی۔ نمازِ جنازہ کے بعد جب سلطان ٹیپو شہید کو قبر میں اتارا گیا تو ہزاروں لوگوں کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسوچھلک پڑے اور منہ سے بے اختیار فرطِ غم سے چیخیں نکل گئیں۔ قبر میں مٹّی ڈالی جانے لگی۔ لوگ روتی آنکھوں سے اِس عظیم مجاہد کو دفن کر کے دکھی دلوں کے ساتھ اپنے اپنے گھر لوٹ گئے۔

سلطان ٹیپو شہید کی شہادت کے بعد انگریزوں نے سری رنگاپٹّم میں لوٹ مار کے سارے ریکارڈ توڑ دیے اور بے پناہ دولت و ثروت حاصل کی۔ جب میسور پر اُن کا مکمل طور پر قبضہ ہو گیا تو انگریزوں، مرہٹوں، نظام کے سرداروں، سلطان ٹیپو کے نمک حرام غدّار امیروں اور وزیروں کی ایک مِلی جُلی بیٹھک ہوئی، جس میں میسور کے تخت و تاج کے مستقبل کا فیصلہ کیا جانا تھا۔ سب لوگوں نے سلطان شہید کے کسی شہزادے کو تخت پر بٹھانے کی تجویز پیش کی۔ ہوسکتا تھا کہ اس پر عمل بھی ہو جاتا لیکن ایک غدّار میر غلام علی نے کہا کہ:’’ سانپ کو مار دینا اور سانپ کے بچّے کو پالنا عقل مندوں کا کام نہیں۔ سلطان ٹیپو کے لڑکے کو تخت پر بٹھا دیا گیا تو تمھیں ایک اور ٹیپو سے مقابلے کے لیے تیار ہو جانا پڑے گا۔‘‘

                                                            پھر انگریزوں، مرہٹوں اور نظام نے ’’سلطنتِ خداداد میسور‘‘ کو آپس میں تقسیم کر لیا۔بقیہ مختصر سے حصے پر میسور کے پُرانے ہندو راجاؤں کے خاندان کے ایک پانچ سالہ شہزادے کو حکمراں بنا دیا جو کہ برائے نام تھا، سلطنت کا اصل انتظام انگریزوں کے ہاتھ میں تھا۔ یہ تقسیم عارضی ثابت ہوئی۔ شاطر اور مکار انگریزوں نے دھیرے دھیرے پورے ہندوستان پر قبضہ جما لیا اور نظام، مرہٹوں، ہندوستان کے تمام باشندوں یہاں تک کہ آزادی کے متوالے سلطان ٹیپو کے دشمنوں یعنی اپنے وفاداروں تک کے پیروں میں غلامی کی زنجیر پہنا دی۔

ہندوستان کی آزادی کی تاریخ میں فتح علی سلطان ٹیپو شہید کا نام ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ سلطان ٹیپو نے ساری زندگی جنگ کے میدانوں میں توپوں کی گھن گرج، تلواروں کی جھنکاروں اور گولیوں کی بارش میں مردانہ وار دشمنوں سے مقابلہ کرنے میں گذاری۔ وہ بہادر کی زندگی جیے اور بہادر کی موت مرے۔ نو عمری کے زمانے میں بھی انھوں نے اپنے والد حیدر علی کے ساتھ کئی جنگیں لڑیں اور کامیاب ہوئے۔ ۱۷۸۲ء سے۷ ۱۷۹۹ء تک میسور پر حکمرانی کی۔ وہ دنیا کے ان گنے چنے حکمرانوں میں سے تھے جنھوں نے لڑتے ہوئے عام فوجی کی طرح میدانِ جنگ میں شہادت پائی۔

                                                            انھوں نے ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے اور تسلط کے خلاف یہاں کے تمام حکمرانوں کو متحد کرنے کی بہت کوشش کی۔ لیکن انگریزوں کی سازشوں کی وجہ سے انھیں اِس میں کامیابی نہ مِل سکی۔ سلطان ٹیپو جس طرح انگریزوں کو شکست پر شکست دے رہے تھے اُن لوگوں نے سمجھ لیا تھا کہ میدانِ جنگ میں ٹیپو کو ہرا نا اُن کے بس میں نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے ٹیپو کے خلاف خود اُن کے بعض وزیروں اور مشیروں کو خرید لیا۔ جن کی نمک حرامی اور غدّاری کی وجہ سے سری رنگا پٹّم پر انگریزوں کو فتح حاصل ہوئی۔ سلطان ایک ایسے بہادر اور جواں مرد حکمراں تھے کہ جن کی شہادت کے بعد ہی سے ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ ممکن ہوسکا۔ ہمارے ملک ہندوستان کی جد و جہدِ آزادی میں اس عظیم مجاہد کا نام آج بھی خوب روشن ہے جب کہ غدّاروں اور نمک حراموں کا اب کوئی نام لیوا نہیں۔

 

 ڈاکٹر مشاہد رضوی کی کتاب’’سلطان ٹیپو‘‘ سے ماخوذ

admin:

View Comments (5134)